Urdu funny poetry
No .1
جیسے ہی تیری آنکھوں کے تِیر چلے
زخمی ہو کر ہم جیسے بھی پِیر چلے
سونگھ کر تیرے بدن کی خُوشبُو
چوکھٹ پہ تیری صدا لگانے فقیر چلے
جو دیکھا تھاپچھلی شب خواب ہم نے
معلوم کرنے اُس کی ہم تعبیر چلے
عرش پر فرشتے سا بھیس بنائے
کھینچنے قسمت کی اِک اور لکیر چلے
روزِ محشر اعمال اپنے کی کیا کہیئے
جہاں سے ہم لے تیری تصویر چلے
کِھل اُٹھتے ہیں دیکھتے ہی پھول کئی
گُلشن میں جب حُسن کی ہیر چلے
وہ ہم سے سر گِراں بھی تھے لیکن
قدم اُٹھائے وہ ہماری اوڑھ اخیر چلے
عِشق کیا ، گناہ کیا ، کُچھ خبر نہیں
لوگ کہتے ہیں کر تُم گُناہِ کبیر چلے
وہ گہرے زخموں کے ڈھیر لگائے شوخ
میرے گُلاب سے دل کو آہ چیر چلے
قاسم شوخ
No.2
نہیں تها رابطہ اس سے ہمارے خواب روتے تهے
جوانی ہم پہ جب آئی تو موبائل نہ ہوتے تهے
اسے گهر فون کرنا ہو تو بس اک لینڈ لائن تهی
وہ جس پہ اسکی اماں پہرہ دینے والی ڈائن تهی
صدا بهی ہوبہو اسکی مرے دلبر سی فائن تهی
غلطی سے ہم اپنے دکهڑے اسکے آگے روتے تهے
جوانی ہم پہ جب آئی تو موبائل نہ ہوتے تهے
------------------------------------------------
ہمارے عہد میں نیٹ تها نہ ہی ای میل ہوتی تهی
محبت دو طرف سے ہوتی پهر بهی فیل ہوتی تهی
جو بهی حد ادب سے بڑهتا اسکو جیل ہوتی تهی
سب اپنے عشق کی مالا میں اشکوں کو پروتے تهے
جوانی ہم پہ جب آئی تو موبائل نہ ہوتے تهے
----------------------------------------------
وہ اک مس کال کر دیتی تو کیا سے کیا نہ ہو جاتا
وہ مجهہ سے ملنے آتی یا میں اس کے گهر سے ہو آتا
اسی باعث اور اس دوران رشتہ پکا ہو جاتا
مگر وہ روزوشب تو خار تنہائی چبهوتے تهے
جوانی ہم پہ جب آئی تو موبائل نہ ہوتے تهے
----------------------------------------------
پهر اک دن فیصلہ کن مرحلہ تعزیر کا آیا
مری کالوں سے نالاں اسکا بهائی کزنوں کو لایا
مرے سر سے انهوں نے بهوت چاہت کا اتروایا
پهر اس دن چهالیہ تها دل مرا وہ سب سروتے تهے
جوانی ہم پہ جب آئی تو موبائل نہ ہوتے تهے
-----------------------------------------------
وہ اب ای میل ایڈریس دے تو اسکا فائدہ کیا ہے
جو چڑیاں چگ گئیں ہیں کهیت، کهیتوں میں بچا کیا ہے
کوئی بچہ ہی اٹهہ کے پوچهے گا یہ سلسلہ کیا ہے
سنہری وقت تها جس دم ، نصیبے اپنے سوتے تهے
جوانی ہم پہ جب آئی تو موبائل نہ ہوتے تهے
محمد سعید کریم بیبانی
No.3
سواری پر سواری ہو رہی ہے
مری گردن بھی لاری ہو رہی ہے
اُسے تو خیر ملنا ہے کسی سے
مجھے کیوں بے قراری ہو رہی ہے
امورِ خارجہ سے تنگ آ کر
امورِ خانہ داری ہو رہی ہے
پلٹ جاؤ مرے نادان سورج
یہاں پر شب گزاری ہو رہی ہے
بھلا دے گی اسے منٹوں میں دنیا
جو محفل یادگاری ہو رہی ہے
ریاضی میں اگرچہ فیل ہیں ہم
مگر اختر شماری ہو رہی ہے
شکم کی ابتری میں فائدہ ہے
زمیں پر دست کاری ہو رہی ہے
ذرا سی مسکراہٹ کے عقب میں
بہت سی گریہ زاری ہو رہی ہے
کڑاہی گوشت کھانا چاہتا ہوں
مگر صبحِ نہاری ہو رہی ہے
درِ دل کھول اور خیرات کر دے
مری دستک بھکاری ہو رہی ہے
بہت بے چین میرے دل کی مانند
ترے منہ میں سپاری ہو رہی ہے
مرے رونے کی ویڈیو بن رہی ہے
اداکاری بھی ساری ہو رہی ہے
کھلا چھوڑا ہے ہم نے دل وہاں پر
جہاں چوری چکاری ہو رہی ہے
جو پوچھا یہ ڈفر کیا لکھ رہے ہو
تو بولا شعر و شاعری ہو رہی ہے
فیضی
0 Comments