Sad poetry Ghazal & shyri 2020

Sad poetry 


- Express  your    feeling   with Karachi's largest. Collections of sad poetry ,shyri 
& Urdu Nazam sumbit sad sahayri & Urdu nazam . Find Sad poetry last uptade on Monday 1 April 2020 sad poetry in urdu urdu sad poetry what is sad sahayri ? Sad poetry is the expression of your soorows and grievance that every human beings experience in their daily life the best thing to express your true sad feelings is. to listen,recite or share sad poetry

Sooo jaya karte 


Tere yaadoonn pe qasam se marjaya karte the
Tere. Yadoon me din ko rat kar ke soojaya karte the 
Aaj bhi humain yaad he woh haseen pal ke jin me 
Apni unglionn se tere baloon ko sehlaya karte thy

 زندگى تماشہ


عجیب تماشہ ىہ زندگى ہے 
تھکے ہوؤں کى نا جان چھوڑے
اسىر ہے جوانہىں سے بھاگے
عجب ہى اس کا فلسفہ ہے 
عجىب ہى رکھتى ہے قانون ىے
تڑپنے نے والے کو اور توڑے
ہنستے بستوں کو مار ڈالے
عجیب تماشہ ىہ زندگى ہے
عجیب تماشہ ىہ زندگى ہے


چڑیوں پھولوں مہتابوں کا


چڑیوں پھولوں مہتابوں کا
مرا منظرنامہ خوابوں کا

آنکھوں میں لوح خزانوں کی
شانوں پر بوجھ خرابوں کا

یا نصرت آج کمانوں کی
یا دائم رنگ گلابوں کا

اس فضا میں جو مجھ کو راس نہیں


اس فضا میں جو مجھ کو راس نہیں
خوش ہوں اتنا کہ بس اداس نہیں

اب تو اتنی برہنگی ہے یہاں
جو برہنہ ہے بے لباس نہیں

مری دانائی کو جنوں ہی سمجھ
عقل پیمانہ حواس نہیں

تیرے بارے میں جانتا ہوں بہت
میں جو تیرا ادا شناس نہیں

خیر تیرا تو آسرا کیا ہے
مجھ کو خود سے بھی کوئی آس نہیں

وہ بھی مجھ میں گذر رہا ہے کہیں
ایک موسم جو میرے پاس نہیں
اکبر معصوم

نئی اک اور حقیقت بنانے والا ہوں


نئی اک اور حقیقت بنانے والا ہوں
میں اُس کو خواب سمجھ کر بھلانے والا ہوں

جو میرا جھوٹ تھا،مجھ کوکھراسمجھتاتھا
میں جس کاسچ ہوں اُسے آزمانے والا ہوں

انا کی جنگ،خرد کا کھنڈر،جُنوں کے چراغ
میں اس محاذ پہ سب کچھ لُٹانے والا ہوں

کسی کی یاد بھی کتنے ہجوم رکھتی ہے
اکیلا رہ کے میں سارے زمانے والا ہوں

کسی کے پاس رہوں توکسی کی یاد آئے
میں اب کی بار یہ غم بھی اُٹھانے والا ہوں
شاہد جمیل

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے، نہ گے



یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے، نہ گئے
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے

اب وہ نیندوں کا اُجڑتا تو نہیں دیکھیں گے
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے

رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چرائے نہ گئے

بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے

پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے

تیز بارش ہو، گھنا پیڑ ہو، اِک لڑکی ہو
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے

روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال
چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے
پروین شاکر


گُونجتی صداؤں کی ہر لپک قیامت ہے ،راستوں


گُونجتی صداؤں کی ہر لپک قیامت ہے ،راستوں کو مت کرنا بد گمان شہزادے
مُڑ کے بے خیالی میں دیکھنا نہیں اچھا، ہو گئے یہاں پتھر سخت جان شہزادے

منتروں کی سرشاری، اب کہاں کی بے داری، ایک خود فراموشی، ایک خواب سا طاری
اِک طلسم کی خود رَو بیل بُنتی جاتی ہے، آہنی فصیلوں میں داستان شہزادے

ہو گئی ہیں زنگ آلود بیڑیاں بھی پاؤں کی، کیو ں مری مسافت پر جنگلوں نےچھاؤں کی
رہگذر نہیں مِلتی اُن محل سراؤں کی، ختم کیوں نہیں ہوتا امتحان شہزادے

خواب سا پگھلتی ہوں، آئنوں سا کھِلتی ہوں، ریگزارِ ساحل پر عکس عکس مِلتی ہوں
دھڑکنیں سِمٹتی ہیں اور کھُلتے جاتے ہیں، سانس کے سفینوں میں، بادبان شہزادے

اِک ہزار راتوں تک کس طرح سُنانی ہے، میرے پاس شہزادے ایک ہی کہانی ہے
اور اس کہانی کے حرفِ اولیں میں ہے، طائرِیقیں میں ہے، میری جان شہزادے!
عنبرین صلاح الدین


فلک کرنے کے قابل آسماں ہے


فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے

گئے ان قافلوں سے بھی اٹھی گرد
ہماری خاک کیا جانیں کہاں ہے

بہت نامہرباں رہتا ہے یعنی
ہمارے حال پر کچھ مہرباں ہے

ہمیں جس جائے کل غش آ گیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہے

مژہ ہر اک ہے اس کی تیز ناوک
خمیدہ بھوں جو ہے زوریں کماں ہے

اسے جب تک ہے تیر اندازی کا شوق
زبونی پر مری خاطر نشاں ہے

چلی جاتی ہے دھڑکوں ہی میں جاں بھی
یہیں سے کہتے ہیں جاں کو رواں ہے

اسی کا دم بھرا کرتے رہیں گے
بدن میں اپنے جب تک نیم جاں ہے

پڑا ہے پھول گھر میں کاہے کو میرؔ
جھمک ہے گل کی برق آشیاں ہے
میر تقی میر

 ىہ کون سے صحرا کی پُراسرار ہوا تھی


یہ کون سے صحرا کی پُراسرار ہوا تھی
پل بھر میں نہ دریا تھا نہ میں تھا نہ گھٹا تھی

جنگل تھا نہ بادل تھا نہ ساحل تھا نہ دل تھا
آندھی تھی نہ بارش تھی گرج تھی نہ صدا تھی

طائر سفر آمادہ تھے گھر تھا کہ شجر تھا
جھیلوں کا بلاوا تھا، پہاڑوں کی ندا تھی

کل نیند کی آنکھوں میں چمکتے تھے ستارے
کل خواب بچھونوں پہ کھلونوں کی ضیا تھی

کل رات سناتی تھی فرشتوں کی کہانی
کل نرم رداؤں میں ڈُعاؤں کی ضیا تھی

بانہوں پہ نگاہوں کے بندھے رہتے تھے تعویذ
گھیروں سے سویروں کو نکلنے پہ سزا تھی

دالانوں میں سو جاتے تھے سہمے ہوئے بچے
افسوں تھا کہ شب گشت فقیروں کی صدا تھی

چھت نار درختوں میں چھپی رہتی تھی دوپہر
اک آم کی گٹھلی میں نفیری کی ندا تھی

مٹی کے چراغوں میں جلا کرتی تھیں راتیں
چڑیوں کے بسیروں میں سویروں کی صدا تھی

پلکوں سے گرا کرتے تھے بھیگے ہوئے جگنو
پھیلے ہوئے ہاتھوں پہ شفق تھی نہ حنا تھی
عرفان صدیقی

خرابہ تھا مگر ایسا نہیں تھا


ابہ تھا مگر ایسا نہیں تھا
عزیزو، میرا گھر ایسا نہیں تھا

اندھیرا تھا مری گلیوں میں لیکن
پسِ دیوار و در ایسا نہیں تھا

زمیں نامہرباں اتنی نہیں تھی
فلک حدِ نظر ایسا نہیں تھا

کوئی اُونچا نہیں اُڑتا تھا، پھر بھی
کوئی بے بال و پر ایسا نہیں تھا

قفس میں جس طرح چپ ہے یہ طائر
سرِ شاخِ شجر ایسا نہیں تھا

کوئی آزار تھا پہلے بھی دل کو
مگر اے چارہ گر، ایسا نہیں تھا

نہیں تھا میں بھی اتنا بے تعلق
کہ تو بھی بے خبر ایسا نہیں تھا

اس انجامِ سفر پر کیا بتاؤں
کہ آغازِ سفر ایسا نہیں تھا

مرے خوابوں کے دریا خشک ہوجائیں
نہیں‘ اے چشمِ تر‘ ایسا نہیں تھا

یہ آسودہ جو ہے‘ میری ہوس ہے
مرا سودائے سر ایسا نہیں تھا
عرفان صدیقی

Best sad poetry in this video 



Post a Comment

0 Comments